Wednesday, April 23, 2014

AGreat Gift

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ العنکبوت

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ﴿۴۵﴿اے نبی ؐ ﴾تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی ذریعے سے بھیجی گئی ہے۔ اور نماز قائم کرو،یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہےاور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو ۔

سورۃ العنکبوت حاشیہ نمبر 77 :

خطاب بظاہر نبی سے ہے، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں ۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے ، نماز کے وصف مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کررہا ہے۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یقران القران ولا یجاوز حناجرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ۔ " وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے"۔ (بخاری، مسلم، مؤطا) درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں ۔ اس کے متعلق تو نبی صاف فرماتے ہیں کہ ما امن بالقران من استحل محارمہ۔ " قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا" (ترمذی بروایت صہیب رومی رضی اللہ عنہ) ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیر کٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایت دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پوزیشن کو سرکار رسال مآب نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القران حجۃ لک او علیک، "قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف" (مسلم) یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے، اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضی اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داور محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے، یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی، اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گی۔۔۔۔ سید مودودی.تفہیم القرآن

 

 

No comments:

Post a Comment

Followers