Tuesday, February 25, 2014

A Great Gift :Amazing

حریت انگیز

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۙ﴿۶﴾ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبۡعَثُ مَنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ﴿۷

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے،  اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ ﴿ اِس بات کی دلیل ہے ﴾ کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ، اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اُٹھائے گا جو قبروں میں جاچکے ہیں۔

سورۃ الحج حاشیہ نمبر 8 :

اس سلسلہ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمھارایہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو ۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ، واجب الوجود اور علت العلل (First Cause) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعل مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت، اپنے ارادے ، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پر حکمت ہیں ۔

سورۃ الحج حاشیہ نمبر 9 :

ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے

1.  یہ کہ اللہ ہی حق ہے،

2.   یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ،

3.            یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ،

4.       یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور

5.   یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں ۔

اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں ۔ پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو ۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں ۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضیٰ خلیے (Egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خورد بین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے، یا گوشت کی بوٹی، یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گونگا یا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بد صورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کودن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے ، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فی صدی فیصلے ان ہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں، قوموں کے، بلکہ پوری نوع انسانی کی مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے دنیا میں آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں ، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ " حق " ہے اور صرف اللہ ہی " حق " ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔ دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ " اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے " ۔ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں ۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں ۔ مگر ان ہی مردہ، بے جان مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں ۔ اس کے بعد ذرا اپنے گرد و پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہو ئی پڑی تھیں ۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " اللہ ہر چیز پر قادر ہے " ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا بس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا ؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا کہ انسان کے " امکانات " کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اُس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کردیتا ہے اورکہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے  اس کے سوا وہ کچھ  نہیں کر سکتا ، تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خد ا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔

چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ " قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی " اور یہ کہ " اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں " ، ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کر سکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائیداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیر ارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے، ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے " ، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے، حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے ، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہوگا۔ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سر و سامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے۔

سید مودودی

 

No comments:

Post a Comment

Followers